That's how Clergy rules :(


دنبے کا رنگ کالا تھا

کسی دینی مدرسے میں دو طالب علم پڑھا کرتے تھے ، آپس میں ان کی گہری دوستی تھی ، وقت گزرتا گیا تحصیل علم ہوتا گیا، اخر کار سند فراغت ملی ، دونوں کے راستے جُدا جُدا ہوئے، عالمانہ کورس کرنے کے بعد دونوں کو اپنے اپنے علاقوں کی مسجد میں خطابت و امامت ملی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک طویل عرصہ بعد دونوں کی ملاقات ہوئی ۔۔ پہلا دوست کیا دیکھتا ہے کہ اس کا دوست عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے ۔۔ آس پاس خدام کا ایک سلسلہ ۔۔ مریدین کی جماعتیں اردا گرد ۔۔ گاڑیاں، محافظ و تمام پروٹوکول ۔۔عرض ہر طرح کا سامان دنیا۔۔۔۔۔ مصافحہ ہوا ۔۔ خیر و عافیت دریافت ہوئی ۔۔ دوست دل ہی دل میں یہ سوچ کر ششدر رہ جاتا کہ ناجانے اتنے قلیل عرصہ میں میرے دوست نے کیسے ترقی حاصل کر لی ۔۔ اخر کار اس نے اس راز کو جاننے کا تہیہ کر ہی لیا اور اس عیش و عشرت کی زندگی کے سفر کے بارے میں دریافت کیا ۔۔ سوال کیا کہ ’’یار اس عیش و عشرت کی زندگی اتنے قلیل عرصہ میں۔۔۔ اس کا راز کیا ہے؟؟

دوسرے دوست نے کہا "آو تجھے میں اس زندگی کی "کامیابی" کا راز بتاوں، دیکھوں کل جمعہ کا دن ہے، کل خطابت میں میں ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام کے ذکر کو چھیڑونگا، اس واقعہ میں اس دنبے کا ذکر کرونگا جس کو اللہ تعالیٰ نے جنت سے بھیجا تھا اور اسماعیل علیہ السلام کی جگہ اس دنبے کی ذبح ہوئی تھی۔۔۔ تم دوسرے صف میں عین میرے سامنے بیٹھنا ۔۔ میں واقعہ میں اس بات کا ذکر کرونگا کہ "جس دنبے کو اسماعیل علیہ السلام نے ذبح کیا اس کا رنگ کالا تھا"

میرے اس جملے پر تم اتھ کھڑے ہونا اور باآوازِ بلند تاکہ سارا مجمہ سنے کہنا کہ ’’مولانا صاحب! دنبے کالا نہیں سفید تھا‘‘ ۔ میں دوبارہ دھراونگا کہ دنبے کا رنگ یقینا کالا تھا، تم میری مخالفت کرنا میں اصرار کرونگا تم انکار کرتے رہنا ۔۔ یہاں تک کہ عوام دو حصوں میں منقسم نہ ہو جائے ۔۔ آدھی عوام تمھاری تائید کرے گی اور آدھی عوام میری ۔۔۔ یوں ہم عوام میں اس مسئلہ کے اختلاف پر مقبول ہو جانئیگے ۔۔ اس بعد بس آئیندہ کی زندگی کا لائحہ عمل خود مرتب کر دینا اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ۔۔

چنانجہ ایسا ہی ہوا جمعہ کے بیان میں واقعہ ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ کا ذکر چھڑا ۔۔ بات دنبے کے ذبح تک آئی ۔ رنگ کا ذکر ہوا اور ایک کہرام مچ گیا ۔ کہ دنبہ کالا تھا کہ سفید ۔۔۔ نوبت یہاں تک آئی کہ جماعت متفرق ہوگئی ۔۔ ایک حصہ کالا دنبہ ہونے پر اصرار کرنے لگا دوسرا گرہ سفیدرنگ پر۔۔۔۔۔۔۔ یوں ایک سلسلہ چل پڑا ۔۔ واقعہ کے بعد دونوں دوست اکٹھے ہوئے اور کامیابی پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے ۔۔ اور عوام ان دونون کے گُن گانے لگی۔۔۔

اس واقعہ سے کیا سبق ملا؟ یہ آپ خود اخذ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس واقعہ میں ہمارے مسائل کی جڑ پوشیدہ ہے ۔ اگر غور و فکر کیا جائے۔