Bribed by an Old Lady


میں نے دفتر کے باہر بورڈ آویزاں کر رکھا تھا جس پر تحریر تھا ’’ملاقاتی ہر سوموار اور جمعرات کو صبح 9بجے سے 12تک بلا روک ٹوک تشریف لاسکتے ہیں‘‘۔

ایک روز ایک مفلوک الحال بڑھیا آئی ، رو رو کر بولی کہ میری چند بیگھہ زمین ہے۔ جسے پٹواری کو اس کے نام منتقل کرنا ہے لیکن وہ رشوت لیے بغیر کام کرنے سے انکاری ہے۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں۔ تین چار برسوں سے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہوں لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔اس کی دردناک بپتا سن کر میں نے اُسے گاڑی میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے 60-70 میل دور اس گائوں کے پٹواری کو جا پکڑا۔

ڈپٹی کمشنر کو اپنے گائوں میں دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہوگئے۔ پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی، یہ بڑھیا بڑی شرانگیز ہے اور جھوٹی شکایتیں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی تصدیق کے لیے پٹواری اندر سے ایک جزدان اُٹھا لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا

’’حضور اس مقدس کتاب کی قسم کھاتا ہوں‘‘،

گائوں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا جناب ذرا یہ بستہ کھول کر بھی دیکھ لیں۔ ہم نے بستہ کھولا تو اس میں پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔ میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر ایک اور رجسٹر اُٹھا لایا اور سر جھکا کر بڑھیا کی اراضی کا انتقال کردیا۔

میں نے بڑھیا سے کہا ’’لو بی بی تمہارا کام ہوگیا، اب خوش رہو، بڑھیا کو میری بات کا یقین نہ آیا اور پاس کھڑے نمبر دار سے کہا سچ مچ میرا کام ہوگیا ہے۔ نمبر دار نے تصدیق کی تو بڑھیا کے آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے۔ اس کے دوپٹے کے ایک کونے میں کچھ ریزگاری بندھی ہوئی تھی، اس نے اسے کھول کر سولہ آنے گن کر اپنی مٹھی میں لیے اور اپنی دانست میں سب کی نظریں بچا کر چپکے سے میری جیب میں ڈال دیے۔

اس ادائے معصومانہ اور محبوبانہ پر مجھے بے اختیار رونا آگیا، کئی دوسرے لوگ بھی آب دیدہ ہوگئے۔یہ سولہ آنے واحد ’’رشوت‘‘ ہے جو میں نے اپنی ساری ملازمت کے دوران قبول کی۔ اگر مجھے سونے کا پہاڑ بھی مل جاتا تو میری نظری میں ان سولہ آنوں کے سامنے اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی۔ میں ان آنوں کو آج تک خرچ نہیں کیا کیوں کہ میرا گمان ہے کہ یہ ایک متبرک تحفہ ہے جس نے مجھے ہمیشہ کے لیے مالا مال کردیا۔

(’’شہاب نامہ‘‘ سے اقتباس)

Story of a Pious Man


وہ عورت روز اس نوجوان کو دیکھتی لیکن وہ بغیر اس کی طرف دیکھے سر جھکا کر اسکی گلی سے گزر جاتا ، دیکھنے میں وہ کسی مدرسے کا طالب علم لگتا تھا ، لیکن اتنا خوبصورت تھا کہ وہ دیکھتے ہی اسے اپنا دل دے بیٹھی اور اب چاہتی تھی کہ وہ کسی طرح اس پر نظرِ التفات
ڈالے ۔ لیکن وہ اپنی مستی میں مگن سر جھکائے زیر لب کچھ پڑھتا ہوا روزانہ ایک مخصوص وقت پر وہاں سے گزرتا اور کبھی آنکھ آٹھا کر بھی نہ دیکھتا
اس عورت کو اب ضد سی ہوگئی تھی وہ حیران تھی کہ کوئی ایسا نوجوان بھی ہوسکتا ہے جو اس کی طرف نہ دیکھے ، اور اسے ایسا سوچنے کا حق بھی تھا وہ اپنے علاقے کی سب سے امیر اور خوبصورت عورت تھی خوبصورت اتنی کہ جب وہ باہر نکلتی تو لوگ اسے بے اختیار دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ۔ اسے حیرت تھی کہ جس کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے لوگ ترستے ہیں وہ خود کسی کو پسند کرے اور وہ مائل نہ ہو، اسکی طرف دیکھنا گوارہ نہ کرے
اپنی انا کی شکست اور خوبصورتی کی توہین پر وہ پاگل ہوگئی اور کوئی ایسا منصوبہ سوچنے لگی جس سے وہ اس نوجوان کو حاصل کرسکے اور اسکا غرور توڑ سکے ، آخر کار شیطان نے اسے ایک ایسا طریقہ سجھا دیا جس میں پھنس کر وہ نوجوان اس کی بات مانے بنا رہ ہی نہیں سکتا تھا
اگلے دن جب وہ نوجوان اس گلی سے گزر رہا تھا تو ایک عورت اسکے قریب آئی اور کہنے لگی بیٹا میری مالکن تمہیں بلا رہی ہے ۔ نوجوان نے کہا اماں جی آپ کی مالکن کو مجھ سے کیا کام ہے ، اس عورت نے کہا بیٹا اس نے تم سے کوئی مسلئہ پوچھنا ہے وہ مجبور ہے خود باہر نہیں آسکتی ۔ نوجوان اس عورت کے ساتھ چلا گیا اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جو عورت اسے بلا رہی ہے اسکا منصوبہ کیا ہے وہ کیا چاہتی ہے وہ تو اپنی فطرتی سادہ دلی کی وجہ سے اسکی مدد کرنے کے لیے اس کے گھر آگیا اسکے ذہن میں تھا کہ شاید کوئی بوڑھی عورت ہے جو اپنی کسی معذوری کی وجہ سے باہر آنے سے قاصر ہے
نوکرانی نے اسے ایک کمرے میں بٹھایا اور انتظار کرنے کا کہہ کر چلی گئی ، تھوڑی دیر بعد کمرے میں وہی عورت داخل ہوئی نوجوان نے بے اختیار اپنی نظریں جھکا لی کیونکہ اندر آنے والی عورت بہت خوبصورت تھی ،
نوجوان نے پوچھا جی بی بی آپ نے کونسا مسلئہ پوچھنا ہے ۔ عورت کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ آگئی اس نے اپنے دل کا حال کھول کر رکھ دیا اور کہا کہ میری سب سے بڑی خواہش ہے کہ میں ایک دفعہ تمہیں حاصل کرلوں
نوجوان یہ بات سن کر کانپ گیا اور کہنے لگا اللہ کی بندی اللہ سے ڈرو کیوں گناہ کی طرف مائل ہو رہی ہو ۔ اس نے عورت کو بہت سمجھایا لیکن عورت پر تو شیطان سوار تھا اس نے کہا کہ یا تو تم میری خواہش پوری کرو گے یا پھر میں شور مچاؤں گی کہ تم زبردستی میرے گھر میں داخل ہوئے اور میری عزت پر حملہ کیا
نوجوان یہ بات سن کر بہت پریشان ہوا ، اسے اپنی عزت کسی بھی طرح محفوظ نظر نہیں آرہی تھی ، اسکی بات مانتا تو گناہ گار ہوتا نہ مانتا تو لوگوں کی نظر میں برا بنتا ۔ وہ علاقہ جہاں لوگ اسکی شرافت کی مثالیں دیا کرتے تھے وہاں پر اس پر اس قسم کا الزام لگ جائے یہ اسے گوارہ نہیں تھا ، وہ عجیب مصیبت میں پھنس گیا تھا
دل ہی دل میں وہ اپنے اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور اللہ سے مدد چاہی تو اس کے ذہن میں ایک ترکیب آگئی اس نے عورت سے کہا کہ ٹھیک ہے میں تمہاری خواہش پوری کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن پہلے مجھے بیت الخلاء جانے کی حاجت ہے
عورت نے اسے بیت الخلاء کا بتا دیا اس نوجوان نے اندر جاکر ڈھیر ساری غلاظت اپنے جسم پر مل لی اور باہر آگیا ، عورت اسے دیکھتے ہیں چلا اٹھی یہ تم نے کیا کیا ظالم ۔ مجھ جیسی نفیس طبعیت والی کے سامنے اتنی گندی حالت میں آگئے ، دفع ہو جاؤ ، نکل جاؤ میرے گھر سے ۔
نوجوان فورا" اس کے گھر سے نکل گیا اور قریب ہی ایک نہر پر اپنے آپ کو اور اپنے کپڑوں کو اچھی طرح پاک کیا اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوا واپس مدرسے چلا گیا
نماز کے بعد جب وہ سبق میں بیٹھا تو تھوڑی دیر بعد استاد نے کہا کہ آج تو بہت پیاری خوشبو آرہی ہے ، کس طالب علم نے خوشبو لگائی ہے
وہ نوجوان سمجھ گیا کہ اس کے جسم سے ابھی بدبو گئی نہیں اور استاد جی طنز کر رہے ہیں وہ اپنے آپ میں سمٹ گیا اور اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے
تھوڑی دیر بعد استاد جی نے پھر پوچھا کہ یہ خوشبو کس نے لگائی ہے
لیکن وہ خاموش رہا آخر کار استاد نے سب کو ایک ایک کرکے بلایا اور خوشبو سونگھنے لگے ۔ اس نوجوان کی باری آئی تو وہ بھی سر جھکا کر استاد کے سامنے کھڑا ہوگیا ، استاد نے اس کے کپڑوں کو سونگھا تو وہ خوشبو اسکے کپڑوں سے آرہی تھی استاد نے کہا کہ تم بتا کیوں نہیں رہے تھے کہ یہ خوشبو تم نے لگائی ہے
نوجوان رو پڑا اور کہنے لگا استاد جی اب اور شرمندہ نہ کریں مجھے پتا ہے کہ میرے کپڑوں سے بدبو آرہی ہے لیکن میں مجبور تھا اور اس نے سارا واقعہ استاد کو سنایا
استاد نے کہا کہ میں تمہارا مذاق نہیں اڑا رہا خدا کی قسم تمہارے کپڑوں سے واقعی ہی ایسی خوشبو آرہی ہے جو میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں سونگھی اور یقینا" یہ اللہ کی طرف سے ہے کہ تم نے اپنے آپ کو گناہ سے بچانے کے لیے اپنے آپ کو گندگی لگانا پسند کرلیا لیکن اللہ نے اسی گندگی کو ایک ایسی خوشبو میں بدل دیا جو کہ اس دنیا کی نہیں لگتی
کہتے ہیں کہ اس نوجوان کے ان کپڑوں سے ہمیشہ ہی وہ خوشبو آتی رہی
(نوٹ ، یہ واقعہ بالکل سچا ہے اور ایک عالم دین نے اپنے بیان میں سنایا تھا ، انہوں نے جگہ اور مدرسے کا نام بھی بتایا تھا جو کسی وجہ سے بیان نہیں کیا گیا )

We are still banging :D


Legend


Difference between men and women