Advantages of Name :P


مختلف اقوام کے لوگ اپنی اپنی روایت کے مطابق بچوں کے نام رکھتے ہیں۔ چین ہی کو دیکھ لیجئے وہاں غالباً بچے کی پیدائش کے وقت بچے کے سرہانے پڑی ہوئی کوئی چیز نیچے پھینک دی جاتی ہے، اس کے گرنے سے جو آواز پیدا ہوتی ہے وہی بچے کا نام رکھ دیا جاتا ہے۔ مثلاً….اگر چمچ گرے تو "چھن چھنگ" اور اگر گلاس گرے تو۔ "پانگ ٹنگ"….خدانخواستہ اگر یہی طریقہ ہمارے ہاں بھی رائج ہوجائے تو کیا ہوگا۔ ہمارے ہاں تو بچے کے سرہانے چیزیں ہی بڑی عجیب رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ مثلاً لوہے کا ٹکڑا….کہ بچہ ڈر نہ جائے….چاولوں کی تھیلی….کہ بچے کا سر صحیح بنے….خدا گواہ ہے کہ اگر ان چیزوں میں سے کوئی چیز نیچے گرائی جائے تو بچے کا نام رکھنا پڑے گا…."چوہدری دھم ٹھک۔"

آج کل ہمارے ہاں بلکہ پوری دنیا میں اسلامی لوگ بچوں کا نام اسامہ رکھ رہے ہیں۔ میرے ایک دوست نے بھی اپنے نومولود کا نام اسامہ رکھا، عقیدت کی انتہا دیکھئے کہ بنا غور کیے ساتھ "بن لادن" بھی لگایا ہوا ہے۔ میں نے کہا۔ جناب آپ کا نام تو سرفراز ہے تو پھر آپ کا بچہ "بن لادن" کیسے ہوگیا۔ انہوں نے خوفزدہ ہوتے ہوئے فوراً بچے کا نام کردیا۔ "اسامہ بن لادن بن سرفراز"۔ میرا ایک دوست کہتا ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ میں نے کہا اگر نام میں کچھ نہیں رکھا تو تم گدھا کہنے پر مائنڈ کیوں کرتے ہو!

جناب قارئین جی! شادی کے بعد عورت اپنے نام کے بعد اپنے مرد کا نام لگاتی ہے خود ہی سوچئے کہ اگر عورت کا نام اور مرد کا نام ایک دوسرے کی ضد ہوں تو عورت کا نام کتنا برا لگے گا۔ مثلاً….مہہ جبین دتہ….شہلا ڈوایا….فریحہ بوٹا….یا یوں کہہ لیجئے کہ مسز دتہ، مسز ڈوایا، اور مسز بوٹا….لہذا نام فوراً بدل لیجئے۔ اس سے پہلے کہ دلہن سے پوچھا جائے کہ "مسمات گل بدن، ولد تن بدن، تمہیں حق مہر شرعی بتیس روپے کے عوض موجودگی چار گواہان مسمی بھلا مانس ولد بن مانس قبول ہے۔۔۔ !" اور دلہن کی چیخ نکل جائے۔

نام کے حوالے سے مجھے اپنے نام کے بڑے فائدے ہیں، یونیورسٹی میں، میرے داخلہ فارم پر اکثر لڑکیوں والی کھڑکی میں بھی قابلٍ قبول سمجھے جاتے تھے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ چند سال قبل مجھے روالپنڈی کے ایک شوقین مزاج کا خط موصول ہوا۔ موصوف نے میری کچھ تحریریں پڑھ رکھی تھیں۔ لیکن غالباً میری جنس سے ناواقف تھے۔ لہذا اپنے پہلے خط میں صرف میری اور میری تحریر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے اور آخر میں سوال پوچھا کہ "کیا ہماری دوستی ہوسکتی ہے۔"

چونکہ ان کے خط میں کہیں بھی یہ ظاہر نہیں ہورہا تھا کہ انہوں نے مجھے صنفٍ نازک سمجھ کر خط لکھا ہے لہذا میں نے بھی سادہ سا جواب تحریر کردیا کہ "کیوں نہیں۔" پھر ان کے خطوط کا تانتا بندھ گیا میری طرف سے جواب میں تاخیر ہوئی تو ایک خط میں لکھا۔۔۔ ۔"تم نخرے بہت کرتی ہو۔" میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ میں نے فوراً اس وقت ایک تصویر انہیں ارسال کی جب میں "داڑھی شدہ" ہوتا تھا۔ جواب ارجنٹ میل سے آیا۔ لکھا تھا۔۔۔ "صوفی، تیرا ککھ نہ رہے، میں نے تو ماں کو بھی راضی کرلیا تھا۔"

از : (گل نوخیز اختر)